Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

گلگت میں نوجوان پر پولیس کی تشدد کی ویڈیو وائرل

گلگت میں نوجوان پر پولیس کی تشدد کی ویڈیو وائرل

گلگت میں نوجوان پر پولیس تشدد کی ویڈیو وائرل، سوشل میڈیا پر شدید ردعمل

حال ہی میں گلگت کے ایک تھانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس نے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑادی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار، جو وردی میں نہیں ہے، مبینہ طور پر ایک کم عمر نوجوان پر بہیمانہ تشدد کر رہا ہے۔ نوجوان کا سر کپڑے سے ڈھانپا گیا ہے، اور وہ شینا زبان میں آئندہ ایسی کسی حرکت سے باز رہنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ واقعہ ایک ذاتی استعمال کے کمرے میں پیش آیا، جہاں دیوار پر پولیس کی وردیاں لٹکی ہوئی صاف نظر آ رہی ہیں۔

ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ جہاں کچھ لوگوں نے پولیس کے اس عمل کو غیر انسانی اور خلافِ قانون قرار دیا، وہیں کچھ افراد نے اس کے حق میں بھی بات کی۔

مختلف صارفین کے خیالات:

مسرور حسین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
اس نوجوان نے جو کیا ہے، اس کی سزا بھگت رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن جو سزا دے رہا ہے، وہ اس مجرم سے بھی بڑا خطرناک ہے معاشرے کے لیے۔

عبدالمالک نامی صارف نے سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا:
پولیس کو اس طرح کے تشدد کی اجازت کس قانون نے دی ہے؟ اور اگر دی بھی ہے تو اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنے کا اختیار کس نے دیا؟

جابر عالم جابر نے سوال اٹھایا:
پولیس کس قانون کے تحت ویڈیوز بنا کر نشر کر رہی ہے؟ مجرم کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی مجرم کو یوں سر عام تشدد کا شکار بنانا کوئی کارنامہ نہیں، بلکہ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

جُنید میر گلگتی نے تجویز دی:
ایف آئی اے کو پولیس اور اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف نوٹس لینا چاہیے۔ دورانِ تفتیش ویڈیو اپلوڈ کرنا قانونی جرم ہے۔

ریئس رحیم الدین بیگل نے لکھا:
پاکستان کے کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ایسی سزا دینے کی اجازت نہیں۔ جلد بازی میں ایسی حرکت کی حمایت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ہر ادارے کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے، نہ کہ دائرے سے باہر۔ سر عام ایسی سزا کو سزا نہیں بلکہ ظلم کہا جائے گا۔

بلال شاہ نے سخت سوال اٹھاتے ہوئے لکھا:
جن لوگوں نے کالج کی لڑکیوں کی ویڈیوز لیک کیں اور بلیک میل کر رہے تھے، ان کا کیا بنا؟ یقیناً ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہوگی۔ بس کسی غریب کی معمولی غلطی پر درگت بنائی جاتی ہے۔ بڑی مچھلیاں ہمیشہ آپ کے سسٹم میں سوراخ کرکے نکل جاتی ہیں۔

ریاض کریم نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:
یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی حرکت ہے۔ بچے کے والدین کو چاہیے کہ اس پولیس اہلکار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں۔ پولیس ہو یا آرمی، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے!

ابرار حسین نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے لکھا:
جتنا جرم لڑکے نے لڑکیوں کو تنگ کر کے کیا ہے، اس سے زیادہ جرم پولیس والے نے لڑکے کی چھترول کر کے اور ویڈیو بنوا کر کیا ہے۔ قانون کے مطابق جو سزا بنتی ہے وہی ملنی چاہیے۔ ایسے پولیس والے کو فوراً برطرف کرنا چاہیے!

باسط حسین نے پولیس کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا:
جن کو یہ ظلم لگتا ہے وہ جائیں بھاڑ میں، کیونکہ گناہ کی سزا دینا ظلم نہیں ہوتا۔
رہی بات ویڈیو کی، تو ویڈیو میں لڑکے کا چہرہ نظر نہیں آ رہا، اس سے نقصان کوئی نہیں ہے کیونکہ لڑکا سدھر جائے گا۔ ورنہ اگر اس کا چہرہ نظر آتا تو تماشا بنتا۔
یہ بہت اچھا کام کیا ہے پولیس نے، اس ویڈیو کو دیکھ کر باقی جراثیم سیٹ ہو جائیں گے۔"

ماہرین کی رائے

ایڈوکیٹ وسیم علی نے اس واقعے پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے کہا:
ایک سمجھدار ذہن ہمیشہ پولیس کے اس غیر قانونی اقدام کی نفی کرے گا، لیکن بدقسمتی سے عوام کی اکثریت اخلاقی اور سماجی اصولوں کا سہارا لیتے ہوئے اس کی حمایت کر رہی ہے، جو کسی مہذب معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پولیس کانسٹیبل نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے بغیر کسی مقدمہ درج کیے نوجوان کو نقصان پہنچایا، جو پولیس رولز 1934 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس رولز کے سیکشن 29 کے تحت متعلقہ اہلکار کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے اسے معطل یا برطرف کیا جانا چاہیے، کیونکہ ایسے اہلکار قانون کی اصل روح کو نافذ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

ایڈوکیٹ وسیم نے مزید کہا کہ متاثرہ فریق کو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشنز 342، 337 ایف، اور 506 کے تحت ایف آئی آر درج کرانی چاہیے، تاکہ غلط قید، شجاع خفیفہ پہنچانے، اور مجرمانہ دھمکانے کے الزامات لگائے جا سکیں۔ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 200 کے تحت فوجداری شکایت بھی درج کرائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے اس واقعے کو آئین پاکستان 1973 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسے اہلکاروں کو ان کے اختیارات کے ناجائز استعمال پر آزاد چھوڑ دیا گیا تو معاشرے میں یہ رجحان پیدا ہوگا کہ طاقت کو ہی حق سمجھا جائے، جو ایک مہذب اور قانون پسند معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments