یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آٸی کہ جو بھی فرد کسی بڑے عہدے پر فاٸز ہوجاتا ہے تو یہ کیوں سوچتاہے کہ میں سبکا آفیسر ہوں یعنی پورے علاقے کا ، پورےنظام کا یا پوری عوام کا ۔ حالانکہ بات اسکے بلکل برعکس ہے، دراصل وہ صرف اپنے ماتحت کا آفیسر ہوتا ہے عوام کا نہیں ،،،،
یہاں ہر ایک آفیسر عوام کا ہمدرد کم ، اپنی ذمہ داری سے غافل ، پروموشن اور انکریمنٹ کے بھوکے ، شہرت کے پیاسے اور عہدے کی طاقت کا غلط استعمال کرنے والے ذیادہ نظر آتے ہیں۔
جبکہ اگر ٹیچر اپواٸنٹ ہوتا ہے تو انہی عوام کو پڑھانے کیلیے ، ڈاکٹر بھرتی ہوتا ہے تو علاج کیلیے، فوج میں لگتا ہے تو حفاظت کیلیے، ایڈمنسٹریشن میں لیتا ہے تو انتظام کیلیے غرضیکہ جس ادارے میں بھی ہو آپکی شان بڑھانے کیلیے نہیں بلکہ انہی عوام کی خدمات اور انہیں پریشانی سے بچانے کیلیے آپکو تنخواہ کی مد میں بھاری رقم اور مراعات دیا جاتا ہے ۔
پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس خون جمادینے والی سردی کے موسم میں نا ہسپتالوں میں سہولت میسر ہے نا بجلی کی فراہمی بہتر ہے اور نا ہی روڈ کی حالت سفر کرنے کے قابل دکھاٸی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حالیہ برفباری کے نتیجے میں بلتستان کے باسیوں کا نا قابل تلافی نقصان ہوا اور ہو رہا ہے ، کتنے روڈ ایکسڈنٹ رونما ہوۓہیں ؟ کتنی گاڑیوں کا بیڑا غرق ہو گیا ہے ؟ کتنے لوگ اپنی زندگی کی خوشی سے محروم ہو چکے ہیں؟ اور کتنے لوگ اپنی تندرستگی کھو چکے ہیں؟ لیکن مجال ہے کہ متعلقہ اداروں کے افسران اور ورکرز نیند اور خواب غفلت سے بیدار ہوجاۓ ۔ آپ لوگ کیا کسی بڑے سانحے اور اجتماعی نقصان کے منتظر تو نہیں ہے ؟
کسی بھی جانی یا مالی نقصان کی صورت میں متعلقہ ادارے کے ذمہ داروں پہ FIR ھونا چاہیۓ۔
آپکے پاس اپنی مراعات اور پارٹیاں اڑانے کیلیے فنڈز موجود ہیں تو ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے اور عوام کے جان ومال کی حفاظت اور تحفظ کیلیے پیسےاور مشینری کیوں نہیں ؟ جہاں ایک افسر کی افسرشاہی اور پروٹوکول پہ لاکھوں روپے اڑا سکتے ہوں وہاں لاکھوں عوام کی بنیادی ضروریات اور حقوق کیلیے ہزاروں روپے کیوں نہیں ؟ بات دراصل حکومتی عدم توجہی کی نہیں بلکہ سرکاری محکموں کے افسران کی ناانصافی اور غیرذمہ داری کی ہے۔
کب تک آخر افسرشاہی کب تک ؟؟؟
0 Comments