اگر ہم اپنے پیسوں کو اچھے سے سیونگ کرے تو ہم جلد امیر ہو سکتے ہیں۔ہمیں پہلے اچھے سے ہلال کمانا ہے پھر اس میں سے سیو کرنا ہے پھر آخر میں اسے اچھے سے انویسٹ کرنا ہے۔
دوستو ہم امیر سیونگ سے ہوتے ہیں ہمارے زیادہ کمانے سے نہیں۔آپ جتنے بھی زیادہ کیوں نہ کماٸیں لیکن آپ ہر مہینے اسے بچت کٸے بغیر اڑا دیں گے تو آپ کبھی بھی امیر نہیں بن سکتے۔
جہاں آپ اتنے محنت سے پورے دن کماتا ہے ان کو بچت کرنا بھی آنا چاہیے
شروعات چھوٹے سے کریں
جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ چھوٹے پیسے جمع کرنے سے کیا ہوگا جب بڑے سیلری آٸیں گے یا زیادہ پیسے آٸیں گے تب جمع کریں گے اور امیر ہو جاٸیں گے۔لیکن اگر آپ اب بچت نہیں کر پا رہے ہیں تو جب آپ زیادہ کماٸیں گے تب بھی نہیں کر پاٸیں گے۔یہ بات ایسی ہے جیسے کچھ لوگ اپنے وزن کم کرنے کے لٸے اپنی خوراک میں تبدیلیاں کر لیتے ہیں لیکن کچھ دن ایسا کر لینے کے بعد ان کو اتنا فرق نظر نہیں آتاتو وہ ہار مان جاتے ہیں ایسی طرح خرچے کم کرنا ایک جیسا بات ہے۔
اگر آپ بہت بڑے تبدیلی ایک دم سے کریں گے تو آپ جلد ہار مان جاٸیں گےاور دوبارہ سے وہی کچھ کرنے لگ جاٸیں گے بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے چھوٹے چھوٹے تبدیلیاں لا کر پرکٹس کریں۔تھوڑے پیسے جمع کرنے کی عادت ہی آپ کو مستقبل میں زیادہ پیسے جمع کرنے کی عادت ڈال دے گی۔
پہلے بچاٸیں پھر خرچ کریں
ہم سب عام طور پر یہ غلطی بہت کتے ہیں کہ ہم پہلے اپنی تنخواہ یا کماٸی سے پہلے خرچہ کرنے کے لٸے رکھتا ہے اور پھر نا ہونے کے برابر پیسہ بچتے ہیں اسی لیے ہر مہینے کے آخر ہونے تک ہمارے سارے پیسے کہیں نا کہیں لگ جاتے ہیں اور پھر ہم یہ بولتے ہیں جتنے ہوں اتنے ہی خرچ ہو جاتے ہیں غلطی اس میں ہما ہی کی ہوتی ہے جہاں اتنی محنت سے پورا دن کماتے ہیں وہاں بچانے کے طریقے بھی لازمی آنا چاہیے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے کماٸی سے پہلے دس فیصد پیسوں کو الگ رکھ لیں اور پھر باقی کے بچے نوے فیصد پیسوں سے اپنے خرچے پورے کریں۔
جھوٹی سیل آفر سے دور رہیں
اس چیز کو سمجھنے کے لیے میں آپ کو مزیدار حقیقت کہانی بتاتا ہوں دو بھاٸی تھے جنکی کپڑوں کی ایک دکان تھی دونوں مل کر دکان سنبھالتے تھے ایک دن بڑے بھاٸ نے نوٹ کیا کہ کچھ کپڑے پڑے پڑے پرانے ہو گٸے تھے تو وہ سیل نہیں ہورہے تھے تو اس نے چھوٹے بھاٸی سے پوچھا کہ یہکیوں سیل نہیں ہو رہا ہے۔تو چھوٹےبھاٸی نےبتایا پتا نہیں کسٹمر کو یہ پسند ہی نہیں آتے۔ریٹ بھی کم کر کے دیکھا لیکن نکل ہی نہیں رہے۔تب ہی بڑے بھاٸی کو ایک خیال آیا اس نے وہ چھوٹے بھاٸی کو بتایا۔ایسے ہی اگلے دن دو کسٹمرز آٸے اور ان کپڑوا کو دیکھایا۔جیسے ہی کسٹمر نے قیمت پوچھی تو بڑےبھاٸینے اندر بیٹھے چھوٹے بھاٸی سے پوچھا کہ ان کپڑوں کی کیا قیمت ہے۔چھوٹےبھاٸی نے بولا تین ہزار روپیے بڑے بھاٸی نے پھر پوچھا اس نے دوبارہ بولا تین ہزار اس نے دوبارہ بولا زور سے بولو تمہیں پتا ہے نا مجھے کم سناٸی دیتا ہے اس نے بولا تین ہزار پھر اس نے کسٹمر کو بولا یہ کپڑےدو ہزار کی ہے۔یہ سن کر کسٹمر کو لگا کہ یہ تو بہرا ہے اسے صحیح سے سناٸی نہیں دیتا اس لیے یہ غلطی سے تین ہزار والے چیز مجھے دو ہزار میں دے رہا ہے اس نے ایک ڑریس لینے کے بجاۓ جلدی جلدی دو ڑریس لے لٸے اور جلدی سے پیسے دے کر نکل گیا۔کسٹمر کے جاتے ہی دونوں بھاٸی زور زور سے ہنسنے لگے کیونکہ وہی کپڑے اتنے عرصے سے پندرہ سو روپیے میں بھی نہیں بک رہے تھے۔آج بھی کافی برینٹس ایسا کرتے ہے وہ بس دستخط لگا کر ہمیں بےوقوف بناتے ہیں۔
زیادہ دیکھاوے کرنے والے دوستوں سے دور رہیں
ہم جس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے ہم پہ ان لوگوں کا بہت گہرا اثرپڑتا ہے اور ہم بھی آہستہ آہستہ ان جیسا ہونے لگتا ہے۔اگر آپ کی کمپنی ایسے لوگوں کے ساتھ ہیں جو دیکھاوے میں یقین رکھتے ہیں تو ان ڈاٸرکٹلی ہر فیصلے میں آپ بھی ان کی طرح سوچنے لگیں گے۔ایسے لوگ آپ کو زیادہ خرچہ کرنے پر مجبور کر دیتے ہے۔یہ لوگ ہمیشہ مہنگے چیزیں خریدنے پر ہی آپ کیتعریف کریں گےاور تعریف تو ہر کوٸی سننا چاہتا ہے تو آپ اور خرچے کریں گے جن کی کوٸی ضرورت نہیں ہوتی کم پیسوں میں بھی اس چیز سے کام لیا جا سکتا ہے اور ایسی طرح کوٸی بھی سمپل چیز خرینے پر وہ آپ کو ڈیس کوریج کریں گے۔مثال کے طور پر آپ کو کہیں جانے کے لیے موٹر ساٸیکل کی ضرورت ہے یا کہیں جانے کے لیے وہ آپ کے کام آ سکیں۔جو کام آپ کے نارمل موٹر ساٸیکل سے بھی ہو سکتا ہے لیکن کچھ دوست آپ کو یہکہتے ہوۓ بھی ملیں گے کہ یار اگر باٸیک لینا ہے تو تھوڑی بڑی لو جو خوبصورت دیکھتا ہو یہ کیا سمپل باٸیک لے رہے ہو،یہ تو بہت عام ہے اتنی خاص نہیں ہے۔یہ وہی لوگ ہے جو آپ کی مہنگی باٸیک آنے پر اس میں سے بھی نقص نکال رہےہوتے ہیں۔آپ کی آس پاس لوگوں کی باتیں آپ کو ساٸکلوجیکل ہارڑ کر سکتی ہیں او اس کے بعد آپ اپنی دن بھر محنت کی کماٸی ان چیزوں پر ضاٸع کر رہے ہوں گے جن کی آپ کو واقع میں ضرورت نہیں ہوتی۔اسی لیے آپ ایسے دوست بناٸیں جو آ کی چیزوں کو نہیں آپ کس طرح کے انسان ہے وہ دیکھ کر آپ کو عزت دیں۔اسطرح آپ اپنے آپ کو مہنگی چیزوںپر خرچہ کرنے سے روک سکتے ہیں کافی بچت کر سکتے ہیں۔
نٸے نٸے ماڈلز کی بیماری
یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں بیمار ہر سال نٸے نٸے آنے والے چیزوں کو خرینا چاہتا ہے۔وہ اسے خریدے بغیر نہیں رہ سکتا کافی زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہیں جو ایک فون یا گاڑی لیتے ہیں اور پھر ایک سال یا کچھ مہینہ بعد نیا گاڑی آۓ گا تو پھر وہ اپنا پرانا فون بیجھ کر نیا فون لیں گےچاہے انکا پرانا چیز صحیح سے کام کیوں نا کر رہا ہو،بلکل صحیح سے کام کیوں نہ کر رہا ہو وہ شوقیہ نٸے ماڈل لیںنا ہی پھر چاہے اس ماڈل میں کچھ خاص ہو یا نہ ہو۔لیکن پھر بھی لوگ اپنا زیادہ پیسہ گنوانے پر تیار ہوتے ہیںاب اس بیماری میں ایک تو آپ کا نقصان ہوتا ہے اپنا پران چیز بیجھنے پر دوسرا نیا لینے پر اس کا ریٹ اس سے زیادہ ہوتا ہے جو آپ خرید رہا ہوتا ہے۔مطلب آپ ڈبل نقصان میں ہوتا ہے۔اس سے اچھا یہ ہے کہ آپ اگر تھوڑا عقل سے کام لیں اور اپنے آپ سے یہ پوچھیں کہ کیا آپ کا ابھی والا فون صحیح سے کام دے رہا ہے یا نہیں اور آپ کا کام صحیح سے ہو رہا ہے یا نہیں تو آپ ایک بہتر فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں۔اس چیز سے فاٸدہ اٹھاتے رہیں جب تک وہ چل رہی ہیں۔یقین کرے آپ اس نٸے فیشن اور شوق سے بچ کر بہت پیسہ بچا سکتے ہیں ار ان لوگوں کی روۓ سے باہر آسکتے ہیں جو اپنی محنت کی کماٸی ڈوبو رہے ہیں۔
صدقہ دیدو اور صبر سے چلو
یہ نہایت اہم اور اہم ترین چیز ہے اگر آپ سو روپے کما کر پانچ روپے صدقہ نہیں دے سکتا تو آپ کی کماٸی کا کوٸی فاٸدہ نہیں۔صدقہ کرو اور صبر سے چلو تو اللہ کے کرم سے خیر وبرکت گرتے آپنی آنکھوں سے دیکھوگے۔تو جب آپ نیا کچھ سیکھو تو اگے لوگوں کو ضرور بتایا کرو یہ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔جیسے یہ چھوٹی سی بات آپ لوگوں کو کہو گے صدقہ دینے کو کہو گے تو جب تک وہ یہ کام جاری رکھیں گے آپ کو ثواب ملتا رہے گا۔
0 Comments