امیدیں انسان سے لگا کر شکوہ رب سے کرتے ہو اے ابن آدم تو بھی کمال کرتے ہو۔ایک بندہ اس کاٸنات میں اپنے علاوہ ایسا ضرور ڈھونڈ لو جو آپ کو آپ سے زیادہ جانتا ہو۔
بے غرض لوگ روٹھ جاۓ تو منا لیا کرو خودغرض لوگ ساتھ چھوڑ جاۓتو شکر ادا کیا کرو۔کچھ لوگوں کا ضرف چند لمحوں کے لٸے غور کرنے پر ہی کھل جاتا ہےیا تو بہت شدت شدت سے مخالفت پر اتر آتے ہیں یا پھر خاموشی سے جڑیں کمزور کرتی ہیں۔
جس کتاب میں عورت کو پردے کا حکم ہوا ہے اسی کتاب میں مرد کو نگاہ جھکاۓ رکھنے کا بھی حکم ہے۔دنیا کا سب سے بڑا جاہل اور احمق وہ شخص وہے جو ہر نصیحت کو یہ سوچ کر پڑھے کہ یہ دوسروں کے لٸے ہے۔
جو مان رکھنے کے لٸے ہارتےہیں ان سے کبھی جیتا نہیں جا سکتا۔
پانے سے پہلے اور کھونے کے بعد ہر شے قیمتی ہوتی ہے۔ایک غیر ضروری بحث ہمارے کسی بھی قریبی دوست کو ہم سے جدا کر سکتی ہے۔دولت کو ہاتھ کے قبضے میں رکھو اسے دل پر قبضہ نہ کرنے دو۔
جب تم ہمت ہارنے لگو تو سوچنا کہ تم نےشروع کس وجہ سے کیا تھا۔پتہ نہیں ہم رب سے جڑنے کے لٸے اپنے ٹوٹنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں۔جو شخص کوشش کرتا ہے اس کے لٸے کوٸی چیز مشکل نہیں ۔
لوگوں کو تب فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے جب آپ کو کسی بات سے کوٸی فرق نہیں پڑتا۔حالات میں اکثر ناکامی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان فوراً کامیابی چاہتا ہے۔چراغ بجھنے سے انکار کر دے تو آندھی بھی پسپا ہو جاتی ہے۔
دیر تک بیہودا باتوں کو سنتے رہنا دل سے عبادت کی حلاوت کو دور کر دیتا ہے۔جہاز خطرے میں ہو تو مسافروں کو دعا سیکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔کسی کے احسان کو اپنا حق نہیں سمجھ لینا چاہیے۔تمادی اصل ہستی تماری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے۔
ہم عجیب لوگ ہیں مواقع ضاٸع کر دیتےہیں اور پھر ان کے تلاش شروع کر دیتے ہیں۔کوشش کو ہاتھی کہہ لیا جاۓ تو نصیب ابابیل کی کنکری ہے۔زندگی کو ہمیشہ مسکا کر گزارو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ کتنی باقی ہے۔
مفید چیز مقدار میں بڑھ جاۓ تو غیر مفید ہوتی جاتی ہے۔ہر بچھڑ جانے والا رشتہ ہمارے جسم میں ایک احساس کو مردہ کر جاتاہے کچھ لوگ ہمارا یقین مار جاتے ہیں ،کچھ پیار،کچھ اعتماد اور کچھ ہماری خوشیاں۔
نیکی خوشبو ہے جو نیت کے پھول سے پھوٹتی ہے جتنی نیت صاف ہوگی اتنا ہی پھول خوشبوار ہوگا۔پریشان عہنے والوں کو کبھی کچھ نہیں ملااگر ملا بھی ہے تو وہ اس سے لطف اندوز کبھی نہیں ہو سکے۔خالق سے دوری جس شکل میں بھی میں بھی ہو مخلوق کے خوف سے نجات دے گا فیصلہ انسان نے خود کرنا ہے۔
دنیا میں صرف ایک محبت ایسی یےجس کو دیکھ کر اللہ خوش ہوتا ہے وہ بیوی کی خاوند سے اور خاوند کی بیوی سے محبت ہے۔کسی دانا کا قول ہےکہ ایک آدمی کی مصروفیت چھ چیزوں میں ہیں۔جب اللہ کو یاد کرتا ہے تو فخر کرتا ہے۔جب اپنے نفس کو یاد کرتا ہے تو حقارت سے یاد کرتا ہے۔جب اللہ کی آیات کو دیکھتا ہے تو نصیحت پکڑتا ہے۔جب گناہ اور شہوت کا خیال آتا ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے۔جب اللہ کے عفو و درگزر کو دیکھتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔جب اپنے گناہوں کو یاد کرتا ہے تو اللہ تعالی سے معافی مانگتا ہے۔
جس کے ساتھ چلو اس کو بھی پتا ہونا چاہیے جس کے خلاف ہو اس کو بھی پتا ہونا چاہیے یہ بیچ والا راستہ منافقت کا ہوتا ہے۔دوسروں کو حقوق سے زیادہ دینا احسان ہے۔احسان کا پہلا درجہ یہ ہے کہ غصہ نہ کیا جاۓ ۔دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے معاف کر دیا جاۓ جس کے عمل نے آپ کے اندر ناپسندیدگی کا اظہار پیدا کیا یعنی غصہ پیدا کیا ،اسے معاف کر دیا جاۓ اور پھر تیسرادرجہ یہ ہے کہ اس پر ہو سکے تو احسان کر دیا جاۓ۔احسان معافی کا اگلا درجہ ہے۔
رتیں لمبی ہوتی ہیں تو دن چھوٹے ہو جاتے ہیں۔مصاٸب آتے ہیں تو یقین رکھیں کہ ان کے حل بھی آتے ہیں،ان سے نکلنے کے راستے بھی بنتے ہیں۔مددگار بھی ملتے ہیں۔سہارے بھی میسر آتے ہیں۔
اللہ تعالی کبھی کسی کو زیرو کنڈیشن میں نہیں لاتا۔یعنی بلکل خالی ہاتھنہیں رکھتا۔ہر انسان کے پاس ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضرور موجود رہتا ہے۔ایک جاۓ تو دوسری چیز اسکی جگہ ضرور لیتی ہے۔
عمر میں بڑا ہونے سے کچھ نہیں ہوتا بڑے آپ تب ہوتے ہیں جب آپ دوسروں کو برداشت کرنا اور سہنا سیکھ جاتے ہیں۔
0 Comments