Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

بیٹی کب پراٸی لگتی ہے(بیٹی سے ماں بننے تک کا سفر) When does a daughter look old (Journey from daughter to mother)

بیٹی کب پراٸی لگتی ہے(بیٹی سے ماں بننے تک کا سفر) When does a daughter look old (Journey from daughter to mother)

نہ جانے یہ بیٹی بھی کیا عجیب چیز ہوتی ہے۔بیٹیجب شادی کے اسٹیج سےسسرال جاتی ہےتب پراٸی نہیں لگتی۔مگر جب وہ میکے آ کر ہاتھ منہ دھونے کے بعد سامنے ٹنگے ٹاول کے بجاۓ اپنے ینگسے محتصر رومال سے منہ پونچھتی ہے تب وہ پراٸی لگتی ہے۔

جب وہ باورچی خانے کے زروازے پر نامعلوم سی کھڑی ہو جاتی ہے تب وہ پراٸی لگتی ہے۔جب وہ پانیکےگلاس کے لٸے ادھر ادھر آنکھیں گھماتی ہے،تب وہ پراٸی لگتی ہے۔جب وہ پوچھتی ہے واشنگ مشین چلاوں کیا ؟تب وہ پراٸی لگتی ہے۔

جب میز پر کھانا لگنے کے بعد بھی برتن کھول کر نہیں دیکھتی تو وہ پراٸی لگتی ہے۔جب پیسے گنتے وقت اپنی نظریں چراتی ہے تب وہ پراٸی لگتی ہے۔

جب بات بات پر غیر ضروری قہقہے لگا کر خوش ہونے کا ڑرامہ کرتی ہے،تب وہ پراٸی لگتی ہے۔اورلوٹتے وقت،اب کب آۓ گی کے جواب میں دیکھو کب آنا ہوتا ہے یہ جواب دیتی ہےتب ہمیشہ کے لٸے پراٸی ہو گٸی ایسے لگتے ہے۔

جب گاڑی میں بیٹھنے کے بعد جب وہ چپکےسے آپ  آنکھیں  چھپا کے حشک کرنے والی کی کوشش کرتی ہے تو وہ پرایا پن ایک جھٹکے میں بہہ جاتا ہے تب وہ پراٸی سی لگتی ہے۔نہیں چاہیے بھیا حصہ میرا مایکاسجاۓ رکھنا۔کچھ نہ دینا مجھے صرف محبت برقرار رکھنا۔

میرے پاپا کےاس گھر میں میری یاد بساۓ رکھنا۔بچوں کے زینوں میں میرا مان برقرار رکھنا۔بیٹی ہوں ہمیشہ اس گھر کی یہ اعزاز سجاۓ رکھنا۔بیٹی سے ماں کا دفر بے فکری سے فکر کا سفر۔رونےسے خاموش کرانے کا سفر ۔غصسے سےتحمل کاسفر۔

پہلے جو آنچل میں چھپ جایا کرتی تھی آج کسی کو آنچل میں چھپا لیتی ہیں۔پہلےجو انگلی پہ گرم لگنے سے گھر کو سر پہ اٹھایا کرتی تھی۔آج ہاتھ جل جانے پر بھی کھانا بنایا کرتی ہیں۔پہلے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ رو جایا کرتی تھی۔آج وہ بڑی بڑی باتوں کو زہن میں چھپایا کرتی ہے۔

پہلے بھاٸی ،دوستوں سے لڑ لیا کرتی تھی۔آج ان  سے بات کرنے کو بھی ترس جاتی ہیں۔ما،ماں کہہ کےپورے گھر میں کھیلا کرتی تھی آج ماں سن کے آہستہ سے مسکرایا کرتی ہیں۔دس بجے اٹھنے پر بھی جلدی اٹھ جانا ہوتا تھا،آج سات بجے اٹھنے پر بھی لیٹ ہو جایا کرتی ہیں۔

اپنے شوق پورا کرتے کرتے ہی سال گزر جاتا تھا آج خود کے لٸےایک کپڑا لینے کو ترس جایا کرتی ہے۔سارا دن فری ہو کے بھی مصروف بتایا کرتی تھی،اب پورے دن کام کر کے بھیکام چور کہلایا کرتی ہیں۔

ایک امتحان کے لٸے پورے سال پڑھا کرتی تھی،اب ہر روز بغیر تیاری کے امتحان دیا کرتی ہیں۔نہ جانےکب کسیکی بیٹی کسی کی ماں بن گٸی ،کب بیٹی ماں کے سفر میں تبدیل ہوگٸی۔بیٹیوں کی امید پہ فقط باپ پورا اترتا ہے یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔

بابا مجھے چھوڑکر گٸےتو زمانے نے بتایا کہ جن بیٹیوں کے باپ نہیں  ہوتے ان کا کوٸی بھی ہمدرد نہیں ہوتا۔بیٹےباگر اولاد نرینہ ہوتےہیں تو بیٹیاں بھی اولاد نگینہ ہوتی ہیں اور ان نگینوں کو ٹھیںس نہیں لگنی چاہیے چاہے وہ اپنی ہوں یا پراٸی۔


Post a Comment

1 Comments