ایک دفعہ ایک شخص صبح صبح اخبار پڑھ رہا تھا اور دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اخبار میں اسکی مرنے کی خبر چھپی تھی۔اس نے اخبار والوں کے خلاف قانونی کارواٸی کرنے کا سوچا لیکن پھر یہ یہ سوچ کر چپ پو گیا کہ لوگوں کی نظر میں میں مر گیا ہوں ۔اب دیکھتے ہیں کہ لوگ مجھے کیسے انسان کے روپ میں یاد رکھتے ہیں اور کیا آپ کو پتا ہے کہ لوگ سا شخص کو کس طرح یاد کرتے تھے۔
لوگ لہتے تھے کہ ڈاٸناماٸٹ بنانے والامر گیا۔موت کو بنانے والا آج خود مر گیا۔لاکھوں لوگوں کی جان لینے والے کی آج خود جان چلی گٸی۔سب ایسا کمنے لگے اور ایسا اس لیے کہنے لگے کیونکہ اس اخبار پڑھنے والے شخص نے ڈاٸناماٸٹ کی ایجاد کی تھی۔اور دہشتگردوں نے ڈاٸناماٸٹ کو استعمال ک کے بہت سے لوگوں کی جان لی تھی اس وجہ سے لوگ اسے ان الفاظوں میں یاد کرنے لگے۔
اب اس شخص نے سوچا کہ مرنے کے بعد کیا لوگ مجھےاسطرح یاد کیا کریں گے یا مرنے کے بعد ایک برے شخص کے طور پر میں یاد کیا جاٶں گا اس نے خود سے یہ سوال کیے۔اور اس نے اس وقت یہ فیصلہ لیا کہ وہ اپنی پہچان بدلے گا تاکہ مرنے کے بعد لوگ اسے اچھے الفاظ میں یاد کریں۔اس نے لوگوں کی خدمت کرنا شروع کر دی ۔اپنا سارا پیسہ غریبوں،مسکینوں ،بیماروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کر دیا۔اس وجہ سے اسکی پہچان بدلی او پھر اس شخص کے نام پر ایک تہوار رکھا گیا جس کو نوبل پراٸز کہا جاتا ہے۔اور اس شخص کا نام الفرٹ نوبل تھا۔یہ ایوارڈ ہر سال دنیا بھر سے ایک ہی شخص کو دیا جاتا ہے جس نے لوگوں کے لیے کام کیا ہو۔غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے اپنی زندگی گزار دی ہو یہانعام اسے دیا جاتا ہے۔اس لیے زندگی میں حقیقی کامیابییہ ہے کہلوگ تمہارےمرنے کے بعد تمہیں کن الفاظ میں یاد رکھتے ہیں۔تم نے ساری زندگی کیسی گزاری ایسی بنا پرمرنے کے بعد تمہارا زکر کیا جاۓ گا۔
ایسی لیے کہتے ہے کہ آخرت کی تیاری صرف یہی نہیں کہ تم نے زندگی میں کتنی نمازیں پڑی بلکہ آخرت کی تیا ری تو یہ ہے کہ تم نے اپنے جیسے کتنےانسان اس دنیا میں چھوڑے۔اگر ایک انسان بھی تم سے متاثر ہو کر اچھے کام میں لگ گیا تو اسکا ثواب تمہیں بھی ملے گا جو تمہارے مرنے کے بعدبھی ملتا رہے گا۔کامیابی اس کو نہیں ملتی جس نے دنیا سے بہت کچھ لیا ہو بلکہکامابی تو اسے ملتی ہ جس نے بہت کچھ دنیا کو دیا ہو۔اس لیےاپنے لیے نہیں بلکہ غریبوں مسکینوںاور ضرورت مندوں کے لیے کچھ کرو پھر دیکھنا تمہارے لیے کیا کیا ہوتا ہے۔
0 Comments