کہتے ہیں کہ لوگ خودکشی اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ان کی بات سننے والا کوٸی نہیں ہوتیں۔
خودکشی حرام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس پریشانی کیوجہ سے لوگ خودکشی کرتے ہیں آ یا وہ وجہ بننے والا شخص کیا ثواب دار ہیں۔ہم ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ خود کشی نہیں کرنا چاہیے کوٸی یہ نہیں کہتا کہ خود کشی کیوں کرنا چاہیے اسکی وجہ کیا ہے؟
ہم ہر دن کٸی واقعات سننتے ہیں یا ٹی وی سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں کہ فلاں نے خودکشی کیا اور دیکھ کر یا سن کر کچھ دنوں میں بھول جاتے ہیں۔حال ہی میں ایک خود کشی کا واقعہ پیش آیا جس میں لڑکی خودکشی سے پہلے اپنی ماں کو فون کرتی ہے اور بتاتی ہے
”بس میں تھک گٸی ہوں زندگی سے اور جینا نہیں چاہتی وجہ یہ تھی کہ جس کی وجہ سے وہ خودکشی کد رہی تھی اس نے ا
لڑکی کو یہ کہا تھا کہ خودکشی کر لو اور مجھے وڈیو بیجھ دو تب ہی اس کی جینے کی تمنا ختم ہوٸی اور مرنے پہ آٸی“۔
امید
اگر امید مر جاۓ تو انسان ختم ہو جاتا ہے۔انسان مر جاتا ہے۔یہ آپ کو آسمان پر بھی پہنچا سکتی ہیں اور زمین کے گہرے پاتالوں کے اندر بھی۔مایوسی کفر ہے۔جو انسان مایوس ہوتا ہے وہ درحقیقت زندگے کے مزے سے نا آشنا ہوتا ہے۔مسعلہ یہ ہیں کہ بہت سارے لوگ اپنے مایوسی کے اندر مجبور ہوتے ہیں۔ہم اپنے معاشرے کے اندر غلط تصورات اور غلط تومات کی وجہ سے انکو معاشرے پر حاوی کرتے ہیں۔
کون سی چیزیں ہیں معاشرے میں جن کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ڑپریشن یا دکھ
ڈپیریشن ایک ایسی چیز ہے جس سے چلتے ہوے انسان اپنی سوچوں پر قادر نہیں ہوتا۔وہ بہت کوشش کرتا ہے کہ کسی طریقے سے ان سوچوں سے ان باتوں سے چھٹکارا حاصل کر سکے لیکن وہ ناکام رہتا ہے۔
اکیلے یا تنہا رہنا
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دکھ کی وجہ سے لوگ زیادہ تر تنہا رہتے ہیں اگر اس کے ساتھ کوٸی ایسا شخص ہو جو اسکی بات سن سکے۔اسکا مسعلہ سمجھ سکے اور اس کا علاج کر سکے۔لہیکن ہمارے ہاں مواشرے کے اندر تصورات اس قدر غلط ہو چکے ہیں توہمات اس قدر عام ہو چکے یں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تو نا امیدی ہے یہ مایوسی ہے خدا کا یقین یا اللہ تعالی کے اوپر سے ایمان اٹھ گیا ہے۔ حالانکہ مسعلہ کچھ اور ہوتا ہے۔
حالت سے مجبور
لوگ سمجتے ہیں کہ وہ شخص پاگل ہے یا اس کو اللہ تعالی کے اوپر بھروسہ نہیں ہے حالنکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اسے علاج کی ضرورت ہے چونکہ صرف جسمانی درد کو ہی دواٸی نہیں چاہیے ہتا کبھی کبھی انسان کا زہن تھگ جاتا ہے حالات کی وجہ سے اسکی علاج اگر کیا جاٸے تو کوٸی بندہ یا بندی خدکشی نا کریں۔چونکہ آپ نے سنا ہوگا اپنی فیملہ میں ،آفیسز میں اور معاشرے میں کچھ لوگ ایسے جملے دہرا رہے ہوتے ہیں کہ میرا مرجانا اچھا ہے،میرے بغیر بھی دنیا چل سکتی ہے یا میرا دنیا کے اندر دل نہیں لگتا۔
ان ساری باتوں کے پیچھے جڑی ہوٸی جو اصل کڑی ہے وہ ہوتی ہے جو آپ کا مینٹل سٹیج ہے جو آپ سے یہ بات کہلوا رہا ہوتا ہے۔وہ خود کشی کے لیے راہ ہموار کر رہا ہوتا ہے۔
علاج
دنیا میں ننانوے فیصد خودکشیاں ڈپریشن کی وجہ سے ہورہی ہیں اور اسکی علاج لاذمی ہے
ڈپریشن کا علاج تین چیزوں کا مجموعہ ہیں۔
میڈیکیشن
ساٸکوتھراپی
لاٸف سٹاٸل تبدیل
اگر ڈپریشن جوں ہی شروع ہو جاٸے تب ہم اپنے زندگی جینے کے طریقے اگر بدل لیں تو اس چیز سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔مشلا لوگوں سے ملنا جلنا چونکہ ڈپریشن کا جو مریض ہے وہ گھر پہ زیادہ رہنا شروع کر دیتا ہے۔ان کے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔بھوک زیادہ لگنا یا بلکل نہ لگنا۔ہر وقت اداسی میں رہنا۔اپنے آپ کو کوستے رہنا یا کسی اور کو کوستے رہنا۔معاشرے کع کوستے رہنا۔اب اس کا علاج یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملنا جمنا شروع کریں۔ان سے بات چیت کرنا شروع کریں۔ان کو یہ سمجھانا کہ معاشرے میں کچھ ایسے بھلاٸیاں ہیں جو براٸی سے بہتر ہے۔ان سے بات کرنا اور ان سے سننا اور ان کو بت کروانے کا موقع دیا جاۓ۔اور ساٸکولوجی میں ایک پروفشنل سایکالوجسٹ جو ہے وہ بات چیت کے ذریعے ڈپریشن ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ساٸکوتھراپیکسٹیشن بہت ضروری ہے پاکستان کے اندر آپ نے ایسے ادارے دیکھیں ہونگے جہاں پر ساٸکو تھراپی وغیرہ ہوتی ہیں اور نفسیات کا علاج ہوا کرتا ہے۔
2 Comments
nice dear
ReplyDeletethnks dear
Delete