گفتگو کے حسن ہمیشہ تین چیزوں پر ہوتے ہیں۔
١۔الفاظ
٢۔لہجہ
٣۔حرکات و سکنات
گفتگو کے دوران یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ گفتگو کا عنوان کیا ہے اور عنوان سے ہٹ کر بات کرنا مناسب نہیں۔اور گفتگو میں الفاظ سات %7 لہجہ %38 اور حرکات وسکنات %55 اہمیت رکھتے ہیں۔یعنی آپکی بات کا اثر زیادہ تر آپکی لہجہ یا انگلش میں بولےتو ساونڈ اور دوسری الفاظ میں آواز کا گہرا اثر ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر بولتے وقت لوگ ہا سننے والے ہمارے باڑی لینگوٸج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں اس لیے آپ کی حرکات و سکنات محدور ہونے چاہیے غیر ضروری حرکت سے آپکی بات لوگوں کے زہنوں سے نکل جاٸیگی۔چند چیزیں اور بھی اہم ہیں جن کا اگر خیال نہ رکھا جاٸے ےو جو بھی آپ کے پرزنٹیشن ہیں اسکا اثر کم پڑھینگے جوکہ یہ ہیں۔
کھڑا ہو کے بات کرنے کا طریقہ
جب بھی آپ کسی محفل میں گفتگو کرتے ہیں تو لازمی ہیں آپ بلکل سٹیڈ کھڑا ہوں اور دونوں پاوں کے درمیانی فاصلہ ایک محدود حد میں ہو یعنی جب ہم نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو جتنا فاصلہ نماز پڑھتے وقت رکھتے ہیں وہی فاصلہ کھیں تو زیادہ مناسب اور بہترین ہے۔
گفتگو کرتے وقت پہلا جو تیس سکینڈ بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں آپ نے بغیر لڑکھڑاۓ آپ کو مسلسل اسی عنوان پہ جو آپکا ہے بات کرنا چاہیے اگر اس دوران اگر آپکی زبان لڑکھڑاٸے تو آپکی گفتگو کا کوٸی وہمیت نہیں رہے گا اس لیے اس بات کا \خیال رکھنا بےحد ضروری ہے۔
آٸی کونٹکٹ
آٸی کونٹکٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے اردو میں اسکا مطلب ہے نظروں میں رکھنا یعنی گفتگو یا ٹریننگ کے دوران جتنے بھی لوگ یا عوام آپ کو سن رہی ہیں ان سب سے ایسے بات کرنا ہے جیسے آپ سب سے بات کر رہے ہوں آپکی نظر میں ہر فرد ہو تب ابھی گفتگو لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے گفتگو کرنے کے لیے آٸی کونٹکٹ میں سب کو رکھ کر بات کر ہر کسی کی بس کی بات نہیں جو کرتا ہے وہ کمال کرتا ہے۔
لفظوں کا انتخاب
معیار گفتکو لفظوں میں ہوتا ہے اگر آپ کو کسی چیز کے بارے میں زیادہ معلومات ہو اور آپ لفظوں کا انتخاب غلط جگہ پہ غلط کریں تو آپ کی گفتگو کا کوٸی فاٸدہ نہیں رہے گا تقریر بن جاۓ گا۔مثال کے طور پر اگر آپ کے گفتگو سننے والے زیادہ پڑھے لکیں ہوں تو آپ انگلش بولو یا پیچیدہ الفاظ استعمال کرو سمجھ جاٸینگے لیکن اگر زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہوں تو اگر آپ آسان الفاظ کا انتخاب کریں گے تو آپ کی بات لوگ سمجیں گے کیونکہ علم بھی ڈگری لینے کا نام نہیں معلومات و حقاٸق سے جو نٸی بات آپ کی زہن میں آتی ہے وہ علم ہیں۔
0 Comments