Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

لکڑہارا اور عاشق پری The Woodcutter And The Lover Fairy

لکڑہارا اور عاشق پری The Woodcutter And The Lover Fairy

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں ایک خوبرو نوجوان رہا کرتا تھا۔اس کا نام شہریار تھا۔ وہ ایک انتہائی نیک دل اور دین

دار انسان تھا۔ وہ پانچ وقت کا نمازی اور حافظ قرآن بھی تھا۔وہ نوجوان ایک بہت ہی خوبصورت آواز کا مالک تھا اور وہ قرآن مجید کی تلاوت بہت خوبصورت انداز میں کیا کرتا تھا۔
وہ اپنے پورے گاؤں کا چہیتا تھا۔ پورا گاؤں اس کی نیک نیتی سے واقف تھا۔اس نوجوان کے والدین بھی بک بہت نیک تھے۔اس کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ اکیلا ہی اس گاؤں میں رہتا تھا۔ وہ اپنا گزر بسر کرنے کے لیے لکڑیاں کاٹ لیا کرتا تھا اور ان کو بیچا کرتا تھا۔ گاؤں کے قریب ہی ایک گھنا جنگل تھا جہاں سے وہ روز کچھ لکڑیاں کا ٹتا اور انہیں بیچ کر اپنی روزی روٹی کماتا۔ اس جنگل کے بارے میں بہت سی افواہیں مشہور تھی۔
دراصل جب سے اس نوجوان نے جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کا کام شروع کیا اس کے بعد سے جنات اور پریوں کے واقعات مشہور ہوئے اور لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ گیا۔اس سے پہلے جنگل کے بارے میں کوئی بھی افواہ نہیں تھی۔لیکن اس لکڑہارے کے جنگل سے لکڑیاں کاٹنے کا کام شروع کرنے کے بعد یہ سب واقعات مشہور ہونا شروع ہو گئے اور لوگوں کے ساتھ چھوٹے موٹے غیر معمولی واقعات بھی پیش آنا شروع ہو گئے۔
اسی گھنے جنگل میں ایک ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا تالاب تھا اور اور ساری افواہوں کا تعلق اسی تالاب سے تھا۔لوگوں کا ماننا تھا کہ پریاں اس تالاب پر آتی ہیں اور وہاں قیام کرتی ہیں۔ اور پریوں کے ساتھ ان کی حفاظت کے لیے چند جنات بھی ہوتے ہیں۔
لیکن یہ نوجوان لکڑہارا ان سب باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا اور وہ روزانہ صبح کے وقت فجر کی نماز ادا کر کے بے خوف و خطر بغیر کسی ڈر کے جنگل چلا جاتا۔وہ اپنے ساتھ قرآن پاک بھی رکھتا تھا۔
یہ اس کا روز کا معمول تھا اور وہ بغیر ناغہ روزانہ جنگل جاتا تھا کیونکہ اس کے علاوہ اس کے پاس روزی روٹی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا لہذا وہ بغیر کسی ناغے کے روزانہ جنگل جاتا لکڑیاں کا ٹتا وہاں رہ کر نماز کے وقت نماز ادا کرتا اور فارغ وقت میں بیٹھ کر اپنی خوبصورت آواز میں قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتا اور شام کو لکڑیاں بیچ کرجنگل سے واپس لوٹ آتا۔
تمام گاؤں کے لوگ اس جنگل میں عصر کے بعد رکنے سے گھبراتے تھے لیکن وہ نوجوان مغرب کی نماز ادا کرکے وہاں سے نکلتا تھا اور راستے میں لکڑیاں بیچ کر اپنے گاؤں واپس اتا۔
گاؤں کے کافی لوگوں نے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اس تالاب کے آس پاس جنات کی موجودگی اور پریوں کو محسوس کیا ہے۔اس وقت تک کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ افواہیں سچ ہیں یا نہیں سوائے ان کے جو ان کا دعوی کرتے تھے۔لیکن ان واقعات سے لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھا ہوا تھا اور وہ کچھ حد تک یقین بھی رکھتے تھے۔
لیکن جیسا کہ نوجوان اسی طلاب کے آس پاس اپنا سارا دن گزارتا تھا وہ ان تمام باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا۔ وہ اپنی زندگی بغیر کسی خوف کے گزرتا تھا اور تمام گاؤں والے اس بات سے حیرت زدہ ہوتے تھے کہ یہ مغرب تک جنگل میں کیسے رہتا ہے اور اسے ان جنات اور پریوں کی موجودگی کا احساس کیوں نہیں ہوتا۔اس نے لوگوں کو یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ طلاق کے آس پاس کوئی جنات یا پر یا نہیں ہیں لیکن ان کے دل میں بیٹھا خوف ان کو اس بات پر یقین کرنے نہیں دیتا۔
پھر ایک دن کچھ ایسا ہوا کے اس نوجوان کے علاوہ باقی تمام گاؤں والوں کو یقین ہوگیا کہ وہاں جنات اور پریاں موجود ہیں۔
دراصل اس دن ایک عیاش پسند آدمی اپنے چند دوستوں اور کچھ خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ اس جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے تالاب کے پاس رات کو قیام کیا۔۔۔۔۔۔
اور اگلے دن ان تمام لوگوں کی لاشیں جنگل کے ایک کونے سے برامد ہوئی۔ تمام گاؤں والوں نے اس بات پر یقین کرلیا کہ اس عیاشی پسند آدمی اور اس کے دوستوں کو جنات اور پریوں نے مارا۔ لیکن اس نوجوان نے اس واقعے کو حادثہ سمجھ کر بھلا دیا۔لیکن اس واقعہ نے گاؤں والا کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا تھا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ خوفزدہ ہوگئے تھے۔تب سے گاؤں والوں نے اس جنگل کے اندر جانا تو دور کی بات اس کے آس پاس سے بھی گزرنا چھوڑ دیا اور وہ اس نوجوان کو بھی اکثر سمجھاتے تھے کہ اس جنگل سے لکڑیاں لانا چھوڑ دو اور کچھ اور کام ڈھونڈ لو لیکن وہ نہ سنتا۔ کیونکہ جس چیز(جنات) کو اس نے آج تک اپنے آس پاس محسوس ہی نہیں کیا وہ اس پر یقین بھی نہیں کرنا چاہتا تھا
وہ خوبرو نوجوان اکثر یہ بات سوچتا تھا کہ تمام گاؤں والے بلاوجہ جنات اور پریوں سے گھبراتے ہیں جبکہ جنگل اور تلاب کے آس پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ ان باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور اپنے کام میں مصروف رہنا پسند کرتا تھا۔وہ لوگوں میں زیادہ گھلتا ملتا نہیں تھا اور اپنے آپ میں ہی رہنا پسند کرتا تھا۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پورے گاؤں کا چاہیتا شک کے زمرے میں آ گیا اور پورے گاؤں کو اس پر شک ہونے لگا کے جنات اور پریوں کی جنگل میں موجودگی کا سبب یہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ تمام گاؤں والے ہیں تقریبا حادثات کا شکار ہو چکے تھے لیکن یہ نوجوان بالکل صحیح سلامت صبح فجر کی نماز ادا کرکے جنگل جاتا اور شام کو صحیح سلامت واپس لوٹاتا اور کوئی بھی حادثہ اس کے ساتھ پیش نہ آتا۔
لوگوں نے اس سے پوچھنا شروع کردیا کہ یہ ایسا کیا کرتا ہے کہ اس کو جنات اور پریوں کی موجودگی تک کا احساس نہیں ہوتا جبکہ باقی تمام لوگ حادثات کا شکار ہو چکے تھے۔ ہر کوئی اس کو مشکوک نظروں سے دیکھتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ لوگوں کے رویوں سے تنگ آ گیا اور اس نےجنگل جانا چھوڑ دیا۔ جب اس نوجوان نے جنگل جانا چھوڑا تو جنگل کے حادثات جنگل سے نکل کر گاؤں کی طرف آنا شروع ہو گئے اور تمام گاؤں والوں کے ساتھ گاؤں کے اندر رہتے ہوئے چھوٹے موٹے حادثات ہونا شروع ہوگئے۔ مثلا بلاوجہ لوگوں کے جانور مرنا شروع ہوگئے اور اسی طرح کے دیگر حادثات ہونا شروع ہوگئے۔ ایک دن تمام گاؤں والے اکٹھے ہو کر اس کے پاس آئے اور اسے دوبارہ جنگل جانے کی ہدایت کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ انکار سن کر گاؤں والے اور پریشان ہوگئے اور تمام واقعات بیان کئے جو کہ ان کے ساتھ پیش آتے تھے لیکن اس نوجوان کے ساتھ کوئی ایسا حادثہ پیش نہیں آتا تھا اس لیے وہ ان تمام چیزوں سے بے خبر تھا اور ان پر یقین نہیں کرتا تھا وہ تمام چیزوں کو اتفاق سمجھتا تھا۔ لیکن گاؤں والوں نے آخر کار اسے دوبارہ جنگل جانے پر منا ہی لیا اور وہ دوبارہ سے جنگل جانا شروع ہوگیا۔ جب سے اس نوجوان نے دوبارہ جنگل جانا شروع کیا تو گاؤں والوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات ختم ہو گئے اور تمام گاؤں والے پرسکون طریقے سے رہنے لگے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کو اس کہانی میں دلچسپی ہے تو کمنٹس میں ضرور بتائیے گا میں اس کا دوسرا پارٹ جلد لانے کی کوشش کروں گا.

Post a Comment

0 Comments