ابے اوے، جانا نہیں جلسے میں، میں نے سلطان سے کہا، اور
اپنی بائیک روک کر صرف بنیان میں اپنے دوست سے بولا، جو گھر کے باہر سے مسکراکر مجھے دیکھ رہا تھا، تو نے ہی تو کہا تھا،بلکہ کل سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھاکہ آج شام چار بجے سیاسی جماعت کا جلسہ ہے، تیار رہوں، میں یہاں اپنا تعارف کرادوں میر انام محمودہے، میں ایک سیاسی جماعت سے نظریاتی طور پر قریب ہوں، مگر اتنا بھی نہیں جنتا کہ سلطان، وہ تو جیسے اپنے لیڈر پر عاشق ہے، اور میں جب سے اسے جانتا ہوں، میں نے اسے اپنے پسند کے لیڈر کے گن گاتے ہوئے ہی دیکھا ہے، وہ ڈائی ہارڈ فین ہے،اب دوپہر کے دو بجے تھے،اور میں تیار ہو کر اس کے گھر وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا تھا، ابھی آتا ہوں، کچھ دیر روک، سلطان ایک دم گھر میں گھس گیا اور میں بائیک کے شیشے میں سے اپنے بال سیٹ کرنے لگا، کچھ دیر میں سلطان گھر سے نکل آیا، اس نے خوب تیار ہو کر سفید لباس پہن رکھا تھا، ساتھ ہی بالوں میں تیل لگا کر سائیڈ کی مانگ نکال کر بال بنائے ہوئے تھے، میں اسے دیکھ کر مسکرایا، اس نے دانت نکال دیے،میں اپنی موٹر سائیکل کی جانب بڑھا اور بائیک اسٹارٹ کردی، سلطان نے کس کے میرے قمیض پکڑ لی، ابے چھوڑ میری قمیض،میں نے گردن موڑ کر اسے دیکھتے ہوئے کہا،ا س نے پانے ہاتھ ہٹا لیے،ہماری منزل کورنگی سے نمائش چورنگی تھی، جہاں یہ جلسہ منقعد کیا جا رہا تھا،ہمیں نکلے ہوئے ابھی بیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ سلطان کی آواز نکلی، سائیڈ پر روک یا ر، اب کیا ہے، میں نے جھنجھلا کر کہا، دو نمبر اسے نے بائیں ہاتھ کی چھوڑی انگلی کھڑی کرتے ہوئے کہا، میں نے بائیک ایک کونے میں روکی، وہ تیزی سے جھاڑیوں میں بھاگتا چلا گیا، کچھ دیر میں واپس آیا، اور ایک ہوٹل کو دیکھ کر بولا، چائے کے بارے میں کیا خیال ہے، اس کے بعد دور تک کوئی ہوٹل نہیں ہے، نیک خیال ہے، میں نے بائیک آگے سے گھمائی اور واپس ہوٹل کی جانب موڑ دی، کچھ دیر میں ہم چائے، سموسے ٹھوس رہے تھے، کھا تو صرف میں رہا تھا، ٹھوس وہ رہا تھا، مجھے سموسوں کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگا، مگر بھوک کی وجہ سے میں کھا رہا تھا، میں اسے کھاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور غصہ کر رہا تھا، کیو ں کہ میں جانتا تھا کہ چائے سموسوں کے پیسے بھی مجھے ہی دینے پڑیں گے، سلطان ایک نمبر کا کنجوس ہے، کچھ دیر میں جب بل کی ادائیگی کی تو پتہ چلا کہ وہ پانچ سموسے کھا گیا، جبکہ میں صرف تین ہی کھا سکا، میں نے گھڑی کی جانب دیکھا، اس وقت تین بجے تھے، ہم ہوٹل سے نکلے اور اپنی بائیک کی جناب بڑھ گئے، میں نے بائیک اسٹار ٹ کی، سلطان پیچھے بیٹھ گیا، اب میں تیز رفتاری سے بائیک چلا رہا تھا تاکہ جلد از جلد نمائش پہنچ کر جلسے میں جگہ حاصل کرسکیں، آدھے گھنٹے بعد ہم جلسہ گاہ پہنچ چکے تھے، میں نے ایک طرف بائیک لگا دی، اسے لا ک کیا، اور دائیں بائیں دیکھنے لگا، لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، جو جلسہ گاہ کی جانب رواں دواں تھا، بچے، عورتیں، جوان، بوڑھے، ہاتھوں میں جھنڈے لیے، تیار، ناچتے گاتے جلسے میں پہنچ رہے تھے، گویا ایک میلہ سا لگا ہوا تھا، لگتا تھا آدھا کراچی جلسے میں آن پہنچا ہے، جیسا کہ ہونا تھا، جلسہ چار کی جگہ چھ بجے شروع ہوا، میں اور سلطان لوگوں کے درمیان لوگوں کا شور، ترانے، گانے، پارٹی پرچم، نعرے، سیٹیاں سن رہے تھے اور خوب انجوائے کر رہے تھے، مسئلہ دو گھنٹے بعد ٹھیک سات بجے شروع ہوا،جو میں اب آپ لوگوں کو بتانے جا رہا ہوں، اس وقت تک جلسہ گاہ مکمل بھر چکی تھی، ہم دونوں اس وقت جلسہ گاہ کے عین درمیان میں تھے، اور لوگ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے، ایک سیا سی رہنما کی تقریر سن رہے تھے، کہ اسی وقت میرے کانوں میں سلطان کی سہمی ہوئی آواز پڑی، سنو یار، کیا ہے، اب، میں نے بے خیالی میں کہا، مجھے پیشاب کی سخت حاجت ہو رہی ہے، اس نے ڈرتے ڈرتے کہا، ساتھ ساتھ معصوم شکل بنا کر مجھے دیکھنے لگا، تو کر آ، باہر جا کر، میں نے کہا، مگر مسئلہ کچھ اور ہے، اس نے اپنا پیٹ پکڑ کر کہا، اور مجمعے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا، اب وہ تیزی دکھا رہا تھا، شاید معاملہ اس کی بر داشت سے آگے نکال گیاتھا، میں نے اسے مسکرا کر دیکھا، اور پھر سے تقریر سننے لگا عین اسی وقت میرے پیٹ میں بھی گڑ گڑ کی آوازیں آنے لگیں، میں نہیں بتا سکتا، مگر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ ان سموسوں کا اثر ہے، جن کا ذائقہ مجھے عجیب لگاتھا، میں نے بھی مجمعے سے نکلنے کی کوشش کی، میں چلایا ہٹو دو، ہٹو، مجھے جانا ہے، مگر اسی وقت جلسے میں تیز آواز میں زور کا پارٹی کاگانا سنائی دینے لگا، میں پھر چلایا، مگر اسی وقت مجھے محسوس ہو گیا کہ برا وقت آگیا ہے، اورمیری شلوار گیلی، کیا بلکہ شاید پیلی بھی ہو چکی ہے، میں اب مجمعے سے باہر بھاگ رہا تھا، لوگ مجھے گھو ر گھور کے دیکھ رہے تھے، شاید انہیں بو محسوس ہونے لگی تھی، میں نے بھاگتے باہر نکلے، یہ الگ کہانی ہے، مگر اتنا بتا دوں کہ اس کے بعد سے میں نے کسی بھی جلسہ میں جانے سے توبہ کر لی ہے، رہا سلطان وہ اب بھی کبھی کبھی جلسے مین شیریک ہوتا ہے، مگر مجھے دانت نکال کر بتا دیتا ہے کہ بتادیتا ہے،کہ یا ر کیا غضب کا جلسہ تھا، سن تو، یار، اور ہاں میں گھر سے فار غ ہو کر جلسہ میں گیا تھا، میں سے ادیکھ کر غصہ بھی کرتا ہوں، ہنس بھی پڑتا ہوں، مگر واپسی کا سفر کبھی نہیں بھول سکتا، میں کیسے گھر پہنچا تھا، اور بچتا،بچاتا ہوا باتھ روم تک پہنچا تھااور شاید یہ ہی حال سلطان کا بھی ہوا ہو۔
0 Comments