بوجل فورٹ ( 𝐁𝐨𝐉𝐨𝐋 𝐅𝐎𝐑𝐓) بلامیک روندو سکردو بلتستان
گلگت سے سکردو جاتے ہوئے ڈمبوداس سے چار،پانچ کلو میٹر پہلے ایک پل(شوت پل) آتا ہے اس کو کراس کرنے کے بعد شاھراہ قراقرم سے 𝟏𝟔 کلو میٹر دور پہاڑوں کے درمیان ایک گمشدہ وادی ہے جس کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس وادی میں موجود فورٹ کے بارے میں اپنے جذبات اور خیالات کو نوک قلم کے ذریعے آپ سے شیئر کرنے کی کوشش کر رہا ھوں، اس امید سے کہ آپ لطف اندوز ھوجائینگے۔
تاریخی ورثہ اور تاریخی نقوش کسی بھی قوم کی تاریخ کا پتہ دیتی ہیں اور آنے والی نسلیں اپنے ماضی رفتہ کو سامنے رکھ کر مستقبل میں نقب ڈالتیں ہیں،ذندہ و باشعور قومیں ہمیشہ اپنے ماضی کی تاریخ،تاریخی ورثہ اور اسلاف کی داستانوں کو محفوظ کر کے مستقبل سے شناسا ہوتیں ہیں،دنیا کے باشعور ممالک اور معاشروں میں تاریخی ورثے کی سب سے زیادہ حفاظت کی جاتی ہے،اور دنیا کی توجہ ان نقوش کی جانب مبذول کرا کے نہ صرف اپنی تاریخ کو روشن رکھا جاتا ہے بلکہ اسی کو زریعہ معاش بھی بناتے ہیں اور اس کو مزید بہتر طریقے سے دنیا کے سامنے اجا گر کرتے ہیں
اس علاقے کا قابلِ ذکر بوجل فورٹ(𝐁𝐨𝐉𝐨𝐋 𝐅𝐎𝐑𝐓 ) جو کہ مقامی طرز تعمیر 𝟑𝟎𝟎 سال پُرانا ہے اور اس کو بلامک کا بزرگ مرزا بوجل (𝐌𝐢𝐫𝐳𝐚 𝐁𝐨𝐣𝐨𝐋 )نے تعمیر کیا۔
مرزا بوجل بلامک کے انتہائی قابلِ فخر شخصیت کے مالک تھے ۔ان کی شخصیت ان کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ان کی چند مثبت خصوصيات وہ محنتی، وقت کا پابند، ذہین ، مخلص اور انسانیت پسند شخصیت کے مالک تھے۔ان کو علاقے میں پہلوان کہا جاتا تھا ۔پہلوان ہونے کا ثبوت اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تلو بروق سے بلامک تک زومو ( 𝐙𝐨𝐌𝐨 ) کو اپنے کندھے پہ اُٹھا کر لے آٸے تھے اور فورٹ کے تعمير میں لکڑی کی بیم جو استعمال کیا ہے وہ انہوں نے اکیلا جنگل سے لے کر آٸے تھے۔ فورٹ بنانے کے لیے مرزا بوجل نے روندو کے مشہور مستری اور بڑهئی کو لیا اور انہوں نے اپنی کمالات کو ظاہر کرتے ہوے تعمير کیا۔لکڑی کے ستونوں کو باندھ کر دیواروں کو مضبوط بنایا گیا ہے۔فورٹ میں علاقے کے سرکردگان دربار لگاتے تھے اور علاقے کے حالات پر گفتگو کرتے تھے۔آج بھی یہ اپنا اصلی شکل میں ہے۔
بلامک گلگت بلتستان کا ایک ایسا مقام ہے جہاں ٹیلوں سے سجا صحرا بھی ڈھونڈ سکتےہیں ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دریا اور جھاڑیاں بھی یہاں عام ہیں۔ سطح سمندر سے 𝟏𝟐 ہزار بلندی پر واقع یہ وادی برف سے ڈھکی چوٹیوں کے درمیان گھری ہوئی ہے اور اس کے ساتھ میدان، سبزہ زار، جنگلات سے لدے درختوں سمیت ٹھنڈے اور تازہ پانی کے
اس وادی میں گرمی کے مہینوں میں کاٹن کے ہلکے ملبوسات ہمیشہ بہترین انتخاب ثابت ہوتے ہیں۔جولائی اور اگست جنگلی پھولوں کو کھلتے دیکھنے اور ٹراﺅٹ مچھلی کے شکار کا بہترین وقت ہوتا ہے وادی بلامک کوہ پیماﺅں کے لیے ٹریکنگ بہترین پہاڑ اور روٹس ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوٸی بہتر انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ٹریکنگ ناممکن ہو رہا ہے ، یہاں موسم گرما میں پھولوں کا نظارہ پہاڑیوں پر ہر جگہ نظر آتا ہے۔ علاقے کی 𝟗𝟎 فیصد آبادی کھیتی باڑی سے اپنا گزربسر کرتی ہے جب کہ 𝟏𝟎 فیصد لوگ روزگار کے دیگر ذرائع سے وابستہ ہیں۔جون، جولائی اور اگست گرم ترین مہینے ہوتے ہیں اور وہ ٹریکنگ و کیمپنگ کیلئے بہترین ہوتے
ہیں،
ہیں،
یہ گلگت بلتستان کا یہ خوبصورت ترین جگہ ہوسکتا ہے اگر انتظامیہ اور وزیر سیاحت اس کے اوپر کام کرے۔
اس وادی کی سیر ضرور کریں۔
جاوید ملک بوجل
0 Comments