وادی بلامک تحصیل روندو سکردو بلتستان
گلگت سے سکردو جاتے ہوئے ڈمبوداس سے چار،پانچ کلو میٹر قبل ایک پل(شوت پل) آتا ہے اس کو کراس کرنے کے بعد شاھراہ قراقرم سے 16 کلو میٹر دور پہاڑوں کے درمیان ایک گمشدہ وادی ہے جس کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں اس وادی کے بارے
میں اپنے جزبات اور خیالات کو نوک قلم کے ذریعے آپ سے شیئر کرنے کی کوشش کر رہا ھوں، اس امید سے کہ آپ لطف اندوز ھوجائینگے.
جغرافیایی خدوخال
وادی بلامک بلتستان کے ضلع سکردو تحصیل روندو کی دور افتادہ اور شاھراہ قراقرم سے 16 کلو میٹر دور ایک حَسِین اور بے مثال وادی ہے جس کی آبادی تقریبًا 10 ھزار نفوس پر مشتمل ہے. وادی بلامک، وسیع اور پھیلا ھوا علاقہ ہےیہ علاقہ بہت سر سبز وشاداب، قدرتی چشموں اور آبشاروں سے مالا مال علاقہ ہے جو کہ تقریبا 20چھوٹے بڑے گاؤں پر مشتمل ہے جس کے شمال میں وادی ھرپوہ، جنوب میں وادی استور، مغرب میں تلو برق اور مشرق میں چند گلیشئروں کے فاصلہ پر بشو واقع ہے.
تاریخ
یوں تو اس وادی کی تاریخ دقیقا کسی کو معلوم نہیں مگر جو آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں مثلا شنل ٹوق، رونکٹی کھر اور کھر زون وغیرہ کی پرانی بوسیدہ عمارتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدیوں کی قدیم تاریخی جگہ ہے.
زبان
گلگت بلتستان کی دو بڑی مشہور زبانیں،بلتی اور شنا زبان اس وادی کی تقریبا برابر بولی جانے والی زبان ہے دونوں قوموں کی رسم و رواج تقریبا ھمساں اور یکنواخت ہے.
آب و ھوا
یہاں کی آب و ھوا کے لحاظ سے تقریبا چار پانچ ماہ موسم بہت مناسب اور خوشگوار ھوتا ہے اور باقی مہینے میں برف باری زیادہ ھوتی ہے گرمیوں کے موسم میں آن وشان کے ساتھ کھڑے کالے پہاڑ اور ان پر ہلکی سی جمی سفید تہہ برف خوبصورتی میں چار چاند لگانے کا سبب ہے.خصوصا صبح کی نماز کے بعد ٹہل پہل کیلئے نکلے تو باد صباء کی خنک جھونکے،مہکتے پھولوں کی خوشبو، پھولوں اور سبزوں پر گرے شبنم کے شفاف قطرے اور مختلف پرندوں کی چہکتےچہکتے اور سریلی آوازیں انسان کیلئے سکون اور شادی کے باعث بنتے ہیں.
وادی بلامک کی ندی نالوں میں شفاف پانی بہتا نظر آئے گا یہ شفاف پانی اپنی پاکیزگی،شیریں و عذبیت اور رنگت میں چاندنی کی طرح چمک رہا ہے اور آسمان کو بھی شرماتا ہے کہی سورج کی کرنیں درختوں پر پڑھ رہی ہیں ایک خوبصورت کا سماں بندھا بوا ھوتا ہے. وادی بلامک سیروسیاحت کا ذوق اور شگفتہ مزاج سیاحوں کیلئے جنت نما علاقہ ہے.
ذریعہ معاش
لوگوں کی ذریعہ معاش کا دارومدارکاشت کاری کو سمجھا جاتا ہےسالانہ چالیس، پچاس کڑور روپئہ صرف آلو کی درآمد ہے اس کے علاوہ گندم،جو اور دیگر اجناس کی کاشت کاری بھی ھوتی ہے. اس کے علاوہ دامداری کو بھی ذریعہ معاش کا بڑا ذریعہ تصور کیا جا سکتا ہے.
پالتو اور جنگلی حیوانات اور پرندے
اس علاقہ کا ایک وسیع و عریض حصہ جنگل پر مشتمل ہے جس میں بہت سارے جنگلی حیوانات مانند ھرن،مارخور، بھیڑا، لومڑی، وغیرہ اور پرندوں میں چکور،کبوتر وغیرہ سر فھرست ہیں. اور پالتو حیوانوں میں گاؤ،زو،زونو،یاک اور بھیڑ بکریاں اھم حیوانات میں شمار ھوتے ہیں چونکہ پورا علاقہ سرسبز اور شاداب ہے اس لئے جگہ جگہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ان سبززاروں میں چرتے نظر آتے ہیں اور قدرتی مناظر کے درمیان چرتے اور اٹھکیلیاں کرتے یہ جانوران منظر کو اور بھی دلکش بناتے ہیں.
اتنی بڑی آبادی کے تناسب سے ابھی تک ھائی اسکول اور دیگر تعلیمی سھولیات سے محروم علاقہ ہے تقریبا 1500 طلبہ و طالبات کیلئے صرف ایک مڈل،ایک پرائمری بوائز اور دو پرائمری گرلز سکول ہیں.میڈکل سھولیات نہ ھونے کے برابر ہے اتنا بڑا علاقہ صرف ایک نرس کے رحم و کرم پر چھوڑا ھوا ہے حتی ڈیلیوری کیلئے کئی کلو میٹر کا سفر طے کر کے ڈمبوداس یا سکردو لے جانا پڑتا ہے جو کہ موجودہ ترقی یافتہ دور کی مناسبت سے سراسر ظلم اور نا انصافی ہے.سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے ۔
مہمان نوازی
یوں تو سارے بلتستان والے مہمان نوازی میں بے بینظر ہیں مگر وادی بلامک کے لوگ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں. یہاں کے لوگ ذوق جمال،رعنائی، خیال، قوت آزادی،سلیقہ مندی اور جرأت مندی میں بے مثال ہیں سچی بات یہ ہے کہ ان میں رواداری اور اخوت کا بڑاجزبہ پایا جاتا ہے اپنے ھمسایوں اور علاقہ کے لوگوں سے پیار و محبت سے رہنا پسند کرتے ہیں. یہاں محبت، آشتی،قدرتی خوبصورتی،خودداری، احساس جزبہ اور فن تعمیر،ذوق سلیم اور ھمدردی و مھربانی کے اعلی مثال ملینگے.
دین کے لحاظ سے سارا علاقہ مسلمان اور مذھب کے اعتبار سے شیعہ اثنا عشری ہے یہی وجہ ہے یہاں مذھبی جنون رکھنے والے اورعلماء دوست لوگ بستے ہیں یہاں قدیم الایام سے علماء نے تبلیغ و تربیت میں اھم کردار ادا کئے ہیں میرے آباواجداد خصوصا میرے تایا شیخ اصغر نجفی اور دادا آخوند تقی کی خدمت اور دور حاضر میں شیخ محمد تقی جعفری کی خدمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے. اس وادی میں کل 9امام بارگاہ اور لگ بھگ 20 مساجد موجود ہیں.
سیاحت
عدم سہولیات کے باعث یہاں سیاحوں کی رفت و آمد نہیں ہے اگر اس وادی کو سیاحت کیلئے پیش کیا جا سکے تو بلتستان کے خوبصورت سیاحتی ورثے میں ایک اور اضافہ ھوگا.
یہ علاقہ سیاحتی علاقہ ہے بلتستان کے ٹاپ سیاحتی علاقہ شمار ھوتا ہے لیکن سڑک اود دیگر سھولیات نہ ھونے کی وجہ سے ابھی تک ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی کی نظر سے اوجھل ہےاگر سھولیات کو فراھم کرے تو شاید پورے گلگت بلتستان کے ٹاپ سیاحتی جگہوں میں شمار ھوگا.
3 Comments
ju
ReplyDeleteJu
DeleteGreat
ReplyDelete